Rang Badalta Aasman By Saheba Firdous Complete Novel

 Rang Badalta Aasman By Saheba Firdous Complete Novel

Rang Badalta Aasman By Saheba Firdous Complete Novel its a social romanic novel write by saheba firdous it publish on Best Urdu Novels Saheba firdous is social media writer she is a very famous on social media becoues of her unique style. she has written many novels and she has large number of fans of her novel.
Download Link
     Read Online 
  
اُترن اِس لفظ سے و ہ صرف آشنا تھی مگرآج حقیقی معنوں میں اُ
 اُترن' کی معنی سمجھ آئی تھی۔ابیہا احمد جوہمیشہ سے سامعہ مراد کی اُترن پہنتی آئی تھی آج وہ ابیہااحمدکی اُترن کو ہی قبول کررہی تھی ۔تھی نا عجیب بات ۔ ابیہا احمد کی اُترن قبول کرنے میں وہ کبھی عار محسوس نہ کرتی مگر اِس دل کا کیا کرتی جوبُری طرح کرچی کرچی ہواتھا۔اُس شخص کو کیسے قبول کرتی جوجانے انجانے میں اُس کی اندرونی توڑ پھوڑ کر سبب تھا۔جس نے اُس کے دل کو،اُس کے جذباتوں کو اپنے لفظوں کی مار مارکر کچل دیاتھا۔ کاش یہ دن آنے سے پہلے ہی وہ اپنے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرلیتی۔کاش کہ وہ اپنے لیے کسی اوررستے کاانتخاب کرلیتی تو اُس کا راستہ واپس اُس شخص کی طرف نہیں جاتا۔۔۔بہت سارے کاش تھے جو اس کے ارد گردگھوم کر اُسے پچھتاؤے میں مبتلاکررہے تھے۔
''وہ شخص کبھی مجھے اپنے خوابوں کی تعبیر لگاکرتا تھا مگر ا ب میںاُس شخص سے نفرت کرتی ہوں۔میں کبھی اُسے اپنی زندگی کا حصہ نہیں بننے دوں۔''خود سے بارہا کہہ یہ الفاظ وہ پھر دہرا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
تین سال پہلے اچانک لگنے والے اُس گہرے صدمے سے وہ خودکو بمشکل سنبھال پائی تھی۔کافی مشکلات پار کرنے کے بعدوہ اپنی زندگی کو آسان بناپائی تھی مگرآ ج پھر الحان مراد نام کا پتھرابھی ابھی پرسکون ہوئی جھیل کو پھرمنتشر کرگیاتھا۔پھراُس جھیل میں ایسا ارتعاش برپا ہوا جو کسی بھی طرح تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
جس شخص کوبھولنے کے لیے اُس نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی ماہ و سال گنوادے تھے اُس ہی شخص کو زوہیب بھائی اُس کی زندگی کاحکمران بنانے جارہے تھے۔کیاہی اچھاہوتاجو وہ پہلے ہی خودکے لیے زندگی کوآسان کردیتی جب اُس کے پاس ایک سے بڑکرایک آپشن تھے۔مگرجب عقل پرپردہ پڑجاتا ہے تونقصان بھی ہمارا ہوتاہے۔اتنی بڑی دنیامیں اُس کی انتخابی نظرکسی پر ٹھہری نہیں تھی یا شاید اُس نے الحان مراد کے نام پر اپنے دل کی کتاب کو بندکردیا تھا وہ نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں۔
ہاں شاید ایسا ہی تھا۔زندگی کے قیمتی ماہ وسال برباد ہونے کے بعد۔۔۔ ساری آس کی ڈوریوں کا سرا چھوٹنے کے بعد وہ جو مل رہاتھاتودل میں کیسی درد کی لہریں اُٹھ رہی تھیں ۔
''کھٹ کھٹ کھٹ۔۔۔''دروازے پردستک کی آواز کے ساتھ عائمہ کی آواز آئی۔
''سامعہ !جلدی باہر نکلو۔''اُن کی پاٹ دارآواز پر اُس نے اپنی اذیت ناک سوچوں کو پسِ پشت ڈال کر وہ عروسی جوڑا اُٹھالیاجو ابیہا احمد نے اپنے نکاح کے دن پہناتھاساتھ ہی وہ زیورات بھی جوابیہا کے تھے۔جہاں زندگی کی شروعات ہی ایک برتے ہوئے شخص کے ساتھ ہورہی تھی تواُسے بھی ابیہا کا عروسی جوڑا،جیولری پہننے میں کوئی قباحت نظرنہیں آئی۔اُس نے ایک نگاہ اُس لباس پر ڈالی جو میرون کلر کا تھا جس پر زری کاکام تھاجسے خود ابیہا نے اپنے ہاتھوں سے بنوایا تھا۔
اُسے آج بھی یاد تھا ابیہا نے اُس خوبصورت سے جوڑے کو پہلی بار اُسے ہی دکھایا تھااور کہاتھا۔
''سامعہ! دیکھوتو یہ جوڑا کیساہے؟''وہ جو اپنے روم کے دریچے سے قرمزی آسمان پر پر نظر جمائے کھڑی تھی ابیہا کی آمد پر چونک کر مڑی تھی۔ نظریں سیدھے اُس کے مرمریں ہاتھوں میں تھامے ہوئے خوبصورت جوڑے پر پڑیں۔وہ جوڑا دیکھ کر دل میں عجیب سی چبھن ہوئی تھی۔چند سیکنڈ کے لیے دل تھم سا گیاتھا مگر سرد ہوا کے جھوکے نے اُسے بے وقت اپنے درد میں جھانکنے سے روکا تھا۔وہ ایک دم ہوش میں آئی۔
''ہوں بہت خوبصورت ہے۔''اپنے لہجے کے بھاری پن پر قابو پاتے ہوئے بمشکل الفاظ ادا کیے۔
'' سامعہ! یہ جوڑا میں نے خود اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔اس عروسی لباس سے میرے بہت سارے جذبات وابستہ ہیں۔یہ جوڑامحض ململ کے کپڑے سے نہیں بنا ہے بلکہ اس میں میرے اور الحان کے خالص جذبات بھی شامل ہیں جو ہمہ وقت مجھے الحان کی بے تحاشہ محبت کا احساس دلائیں گے۔''اُس پل سامعہ کے دل کے ساتھ ساتھ انگیٹھی میںجل رہی لکڑیوں سے ننھی ننھی چنگاریاں پھونٹی تھیں۔وہ چند قدموں کا فاصلہ طے کرکے ابیہا کے بالکل پاس آئی اور اُس جوڑے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔
''جانتی ہو ابیہا !تم بہت خوش قسمت ہو ۔جس کا کاسہ محبت سے بھرا ہوا ہے۔ ورنہ کچھ لوگ محبت کے بدلے اپنے بدصورت رویے تحفے میں دیتے ہیں۔میں دعاکروں گی کہ تم دونوں کے یہ جذبات ایک دوسرے کے لیے ہمیشہ قائم رہیں۔''اُس کی بات پر ابیہا کے چہرے پر روشنی کی کرنیں پھوٹ پڑیں وہ بے ساختہ سامعہ کو خود سے بھینچے گئی ۔دوسری طرف بہت سا رو چکنے کے باوجود اب بھی کچھ بچے ہوئیں آنسو آنکھوں سے نکل کر گالوں پر پھسل پڑے تھے۔
''تم اتنی مایوسی بھری باتیں کیوں کررہی ہو سامعہ۔ میں بھی اللہ سے دعاکروں گی کہ تمہیں تمہاری محبت مل جائے۔''اُس کی بات پر سامعہ مراد دل وجان تڑپ اُٹھی تھی ۔وہی کہیں ابیہا احمد کے فرشتوں نے آمین کہاتھا۔
تیز ہوا کے جھوکے نے اُسے ہوش کی دنیامیں لاپٹخا۔نظریں پھر میرون کلرکے بنے اُس ململ کے عروسی لباس پرپڑیں وہ جوڑااُس کے لیے باعث اذیت کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔پھروہ لباس لے کرڈریسنگ روم کی طرف بڑھ گئی ۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
سجاد مراداور شہباز مراد دوبھائی تھے ۔سجاد مراد گھرکے سب سے بڑے تھے اور اُ ن کی اور شافیہ بیگم کی دواولاد تھیں ۔سب سے بڑا زوہیب مراد اوراُس سے چھ سال چھوٹی سامعہ مراد۔شافیہ بیگم سامعہ کی پیدائش کے وقت ہی جان بحق ہوچکی تھیں۔جس کے بعد سامعہ کی پرورش سجادصاحب نے ہی کی تھی۔
دوسرے نمبر پر شہبازمراد تھے اُن کی اور شبینہ بیگم کی ایک ہی اولاد نرینہ تھی الحان مراد ۔ابیہا احمد شبینہ بیگم کی بہن کی بیٹی تھی ۔بہن اور بہنوئی کا کارایکسیڈنٹ میں انتقال ہوچکا تھا جس کے بعد ابیہا احمد مراد ہاؤس آگئی تھی۔سامعہ جسے ہمیشہ اپنی بہن نہ ہونے کا ملال رہتاتھا وہ کمی ابیہا احمد کے دم سے پوری ہوچکی تھی۔چھ سالہ ابیہا کو دیکھ کر سامعہ کو دلی خوشی ہوئی تھی۔آٹھ سالہ سامعہ، ابیہا احمد کو اپنی بہن کی طرح سمجھاکرتی تھی اور ابیہا احمد کو بھی ایک سچی پرخلوص دوست مل چکی تھی۔


































































Post a Comment

0 Comments