Tu Jo Mera Ho By Saheba Firdous

Tu Jo Mera Ho By Saheba Firdous



Tu Jo Mera Ho By Saheba Firdous Its a social romanic novel write by saheba firdous it publish on Best Urdu Novels Saheba firdous is social media writer she is a very famous on social media becoues of her unique style. she has written many novels and she has large number of fans of her novel.

Download Link
Or 
Or

Reading Online
 Or

سورج کی کرنیں سیدھے اُس کے چہرے پرپڑھ رہی تھیں جس سے اُس سفید چہرہ سنہری ہوگیا تھا۔ سُرخ ڈائے کیے ہوئے بال سورج کی کرنوں کے باعث مزید سُرخ اور چمکدار ہورہے تھے۔جب بھی وہاں سے کوئی گزرتاتو دونوں کو دیکھ کر ٹھٹک جاتا۔کہاں وہ پری پیکراورکہاں اُس کے ساتھ بیٹھا ہواعام سے نقوش والاسانولاسا شخص۔۔

ُ       ”کتنا سکون ہے نا یہاں۔“اُس کی بات پر اس نے محبت پاش نظروں سے اُسے دیکھا اور کہا۔

       ”پرسکون تو ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ نے کیا ہے ورنہ کہاں سکون ہے اس دنیا میں۔دیکھو کس قدر چہل پہل ہے۔“اُس کی بات پر وہ چونکی۔

       نظریں اُٹھا کر اپنے ارد گرد ڈالیں۔ہاں اُس کے اردگرد کس قدر بھیڑ تھی۔ہجوم بیکراں تھا۔سکون تو اُس کے ساتھ میں تھا۔سکو ن تو اُس خواب میں تھا جو دن رات آنکھوں میں گردش کیا کرتاتھا۔سکون تو اُس کی باتوں میں تھا جو دل پرموجود منوں بوجھ کو ایک پل میں مٹی کا ڈھیر کردیتاتھا۔سکون تواُس کے ساتھ میں تھاجواُسے مکمل بنادیتاتھا۔ورنہ اس بھیڑ بھاڑوالی دنیا میں محبت کرنے والوں کے لیے سکون کہاں تھا۔وہاں تو ہرکوئی محبت کادشمن اُنھیں جدائی جیسی سزادینے والے موجودتھے۔۔۔

  ٭……٭……٭

       ”ڈیڈ۔۔ڈیڈآپ کہاں ہیں؟“وہ دھاڑتے ہو ئے گھرمیں داخل ہوئی تھی۔وہ تینوں جواپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے اُس کی دھاڑ سن کرگھبرائے ہوئے لاؤنج میں اکٹھے ہو ئے تھے۔زبیرصاحب اُس کے پاس آئے اور غصے سے گویاہوئے۔

        ”کیاہوا؟کس بات کا شور مچائے رکھاہے؟“زبیرآفندی کا لہجہ کافی کرخت تھا مگر اُسے کسی کے لہجے کی پرواہ نہیں تھی۔وہ اپنی جگہ برہمی سے گویاہوئی۔

      ”آپ کی ہمت کیسے ہوئی میرا اکاؤنٹ بلاک کروانے کی؟“اُس کی بات پرزبیرصاحب کے تنے ہوئے اعصاب ڈھیلے پڑے۔پہلے کی برعکس وہ دھیمے لہجے میں گویاہوئے۔

      ”تم اچھی طرح جانتی ہومیں نے یہ قدم کیوں اٹھایا ہے۔“زبیرصاحب کالہجہ بھلے ہی دھیماہو چکاتھامگرلہجے سے سختی اورسرد مہری واضح طور پرعیاں ہورہی تھی۔اُن کے لہجے کی سردمہری دیکھ کراُس کے ماتھے کی رگیں تن گئیں وہ جواُن کے نرمی بر تنے سے اپنی جگہ خفیف ہوئی تھی اب اُن کاسخت لہجہ دیکھ کروہ بھی سختی سے بولی۔

       ”مجھے ابھی اور اس ہی وقت تین لاکھ روپئے چاہئیں۔ اگرآپ نے انکار کیاتوآپ کوپتاہے ناں میں کیاکرسکتی ہوں۔“وہ جانتی تھی زبیرصاحب اس کی بات مان جائیں گے بس انھیں ایک دھمکی دینے کی ضرورت تھی۔

        ”ایشاز!یہ کیاطریقہ ہے اپنے ڈیڈسے بات کرنے کا؟ساری تمیزبھولتے جارہی ہوتم۔“کافی دیرسے چپ چاپ کھڑیں شبنم بیگم کوبلآخرکار بیچ میں بولناہی پڑا۔

       وہ ویسے بھی اپنی بیٹی کی بدتمیزیوں سے نالاں رہتی تھیں اب بھی اُسے اپنے باپ سے گستاخی کرتا دیکھ کر اُن کاکلیجہ چھلنی ہوگیا۔

       ”مام!یہ میرے اورڈیڈکے بیچ کامعاملاہے آپ کچھ نہ ہی بولیں توبہترہوگا۔“جب انسان باغی اور خودسر ہوجاتاہے تو یہ نہیں دیکھتا ہے کہ اُس کے سامنے کون کھڑا ہے خواں اُس کے سامنے اُس کے والدین ہی کیوں نہ ہووہ اُن سے بھی بدتمیزی کرنے میں عار نہیں محسوس کرتاہے اور یہی معاملہ ایشاز آفندی کے ساتھ تھا۔وہ کسی سے بھی بدتمیزی کرنے سے گریز نہیں کرتی تھی۔بدتمیزی وخودسری اُس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری گئی تھی۔ جو جی چاہتا،جب جی چاہتاوہ سامنے والے کودوکوڑی کاکرکے رکھ دیتی تھی۔پھروہ یہ تک نہیں دیکھتی کہ اُس کے سامنے کون کھڑا ہے۔

        کسی کی بھی شخصیت سے مرغوب ہونایا دباؤ کھانااُس نے جیسے سیکھاہی نہیں تھا۔وہ کسی کابھی لحاظ نہیں کرتی۔کسی کوبھی اپنی ذات کے آگے اہمیت نہیں دیتی تھی۔

        ”ایشاز!آہستہ آواز میں بات کرو۔گھرمیں ملازم بھی ہیں جو تمہاری بدتمیزی سُن رہے ہیں۔ تم نے پہلے ہی ہماری عزت کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اب جو بچی کچی عزت رہ گئی ہے وہ ایسے کمی کمین لوگوں کے سامنے مت اچھالو۔“زبیر صاحب کی بات پر ایک تمسخر بھری مسکراہٹ ایشاز کے لبوں کا احاطہ کر گئی اُنھیں اپنی امارت اپنے اسٹیٹس کی کتنی فکر تھی۔

        ’’تو پھرآپ میرا مطالبہ پورا کردیں اور میں خاموشی سے اس گھرسے دفعان ہو جاؤں گی۔“اُس کی ضد پر زبیر صاحب شکست خوردہ لہجے میں گویا ہوئے۔

       ”میں تمہیں تمہاری مطلوبہ رقم دے دوں گامگرمجھے پہلے تم یہ بتاؤکیوں چاہئیں تمہیں اتنی بڑی رقم؟تمہیں پتابھی ہے تم نے اس ایک مہینے میں کتنے روپے فضول خرچ کیے ہیں۔“اُن کے پوچھنے پراُسے سمجھ نہیں آیاکہ وہ کیاکہے۔تمام ترخودسری کے باوجود وہ کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیتی تھی اوراُس کا دیکھ کر اُن کاکلیجہ چھلنی ہوگیا۔

       ”مام!یہ میرے اورڈیڈکے بیچ کامعاملاہے آپ کچھ نہ ہی بولیں توبہترہوگا۔“جب انسان باغی اور خودسر ہوجاتاہے تو یہ نہیں دیکھتا ہے کہ اُس کے سامنے کون کھڑا ہے خواں اُس کے سامنے اُس کے والدین ہی کیوں نہ ہووہ اُن سے بھی بدتمیزی کرنے میں عار نہیں محسوس کرتاہے اور یہی معاملہ ایشاز آفندی کے ساتھ تھا۔وہ کسی سے بھی بدتمیزی کرنے سے گریز نہیں کرتی تھی۔بدتمیزی وخودسری اُس کے اندر کوٹ کوٹ کر بھری گئی تھی۔ جو جی چاہتا،جب جی چاہتاوہ سامنے والے کودوکوڑی کاکرکے رکھ دیتی تھی۔پھروہ یہ تک نہیں دیکھتی کہ اُس کے سامنے کون کھڑا ہے۔














































































































































































































































































Post a Comment

0 Comments