Love Tere Naal Ho Gaya By Meem Ain Complete Novel

Love Tere Naal Ho Gaya By Meem Ain Complete Novel

Love Tere Naal Ho Gaya By Meem Ain Complete Novel
Its a social romanic novel write by saheba firdous it publish on Best Urdu Novels Saheba firdous is social media writer she is a very famous on social media becoues of her unique style. she has written many novels and she has large number of fans of her novel.
Download Link 
OR
Read Online
کریم مینشن کے ڈائیننگ ہال میں اس وقت ہربونگ مچی ہوئی تھی۔کچن میں کھڑا خوبرو جوان مہارت سے بیلن چلاتا روٹیاں بنا رہا تھا۔ایک چولہے پر چاۓ رکھی تھی جب کہ دوسرے پر فرائی پین میں شامیاں فرائی کر رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وه توے سے روٹی اتارتا اس کے کان سے عجلت بھری آواز ٹکرائی۔

"بھئیا جلدی سے روٹی لا دیں یار۔"طلال کی آواز پر اس نے جلدی سے توے سے روٹی اتار کر چنگیر میں رکھی اور پین میں فرائی ہوتی شامی کو اٹھا کر پلیٹ میں رکھا اور پھر دونوں چیزوں کو اٹھا کر چیئر پر بیٹھے اپنے دونوں چھوٹے بھائیوں کے آگے رکھا۔۔

"بھئیا چائے !!!!"۔طلال کے ساتھ بیٹھے فہام کی فرمائش پر اوہ کہتا واپس مڑنے لگا جب ڈائیننگ ہال میں داخل ہوتا عالم اسے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہتا خود چائے کپوں میں ڈالنے لگا۔

چائے کپوں میں ڈالنے کے بعد وہ ٹیبل پر لے آیا جہاں وہ تینوں بیٹھے سحری کر رہے تھے۔

یہ تھا کریم مینشن کے ڈائیننگ ہال کا منظر جہاں چاروں بھائی عالم کریم ،طالم کریم،فہام کریم  اور طلال کریم رمضان المبارک کی پہلی سحری کر رہے تھے چوں کہ ان کے والدین عباس کریم اور فریحہ عباس کا ایک حادثے میں انتقال ہو گیا تھا اور کوئی بہن بھی نہ تھی اس لئے گھر میں کوئی صنف نازک بھی موجود نہ تھی۔ بڑے سے گھر میں قل چار بھائی ہی تھے بس۔سب سے بڑا عالم باپ کے بزنس کو کامیابی سے آگے بڑھا رہا تھا اور چھوٹے بھائیوں کو باپ بن کر پال رہا تھا۔ 

اس سے چھوٹا طالم یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔اس سے چھوٹا فہام بھی یونیورسٹی کا طالب علم تھا جب کہ سب سے چھوٹا طلال کالج کا سٹوڈنٹ تھا۔

"بھیا آملیٹ میں نمک کم ہے۔"طلال کی شکایت پر طالم نے گردن موڑ کر کاٹ کھانے والی نظروں سے اسے دیکھے۔

"ایک چٹکی نمک کم ہونے سے تمہارا آملیٹ پھیکا نہیں پڑ جاۓ گا۔ غضب خدا کا جوان جہان خوبرو لونڈے کی جوانی رل رہی ہے یہاں کچن میں اور تمہیں نمک کی پڑی ہے لائک سیریسلی!!!!" طلال کی شکایت پر طالم کو تو جیسے سکتا ہی ہو گیا تھا۔

"چٹکی بھر نمک کی قیمت تم کیا جانو طالم بابو!!!!"۔بھلا فہام صاحب کی زبان کی کون لگام ڈال سکتا تھا۔

"سائلنس پلیز!!!! سحری کا وقت ختم ہونے والا ہے بس۔"عالم کی سنجیدہ آواز پر سب تیزی سے تمیز کا مظاہرہ کرتے سحری کرنے لگے۔ جب سب سحری کر چکے تو عالم اور طالم برتن سمیٹنے لگے جب کہ طلال اور فہام ٹیبل صاف کرنے لگے۔

اذانیں شروع ہوئیں تو چاروں نے وضو کر کے مسجد کا رخ کیا۔ نماز پڑھ کے واپس آنے کے بعد وہ چاروں اب کچن کے دروازے میں کھڑے تھے۔ سوال یہ تھا کہ برتن کون دھوئے گا۔

""بھیا آپ جائیں ہم مینیج کر لیں گے!!!وه تینوں یک زبان ہو کر عالم سے بولے تو وہ ابرو اچکا  

کر رہ گیا۔

"آر یو شیور؟"۔عالم کے سوال پر وہ تینوں تیزی سے اثبات میں سر ہلا گئے تو وہ اوکے کہتا وہاں سے اپنے کمرے میں چلا گیا اب وہاں کھڑے تینوں افراد ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔

"میرا کوئز ہے آج برو!!! اور مجھے اپنی نیند کی قربانی دے کر اس کی تیاری کرنی ہے تو اس لئے میری طرف سے تو معذرت!!!"طالم کا عذر تو تیار تھا۔

"اور میری بھی بہت امپورٹنٹ پریزنٹیشن ہے آج جس کی تیاری کرنی ہے مجھے اس لئے آج میری طرف سے بھی سوری یار"فہام نے بھی اپنی مجبوری بتائی تو طلال بے چارگی سے اپنے دونوں بڑے بھائیوں کو دیکھنے لگا۔

"بھیا آپ دونوں جانتے ہیں میں اس وقت کیا سوچ رہا ہوں؟؟"اس کے سوال پر ان دونوں نے اثبات میں سر ہلایا۔

"ہاں ہم جانتے ہیں تم یہی سوچ رہے ہو گے کہ ہم دونوں کی مصروفیت کی وجہ سے تمہیں برتن دھونے پڑیں گے اب۔"۔طالم نے کہا تو طلال نے نفی میں سر ہلایا۔

"نہیں میں یہ نہیں سوچ رہا بلکہ یہ سوچ رہا ہوں کہ آخر ایسا کیا گناہ کر بیٹھا جو آپ دونوں جیسے خود غرض بھائی ملے مجھے۔ جائیں آپ دونوں۔ دھو لوں گا میں اکیلا ہی سب برتن۔"خفگی سے کہتا وہ کچن میں داخل ہوا تو طالم اور فہام ایک نظر ایک دوسرے کو دیکھتے اگلے ہی پل تیزی سے طلال پر جھپٹے۔

"ہمارا شیر تو خفا ہی ہو گیا۔ ہم تو بس مذاق کر رہے تھے یار۔ ساتھ مل کر برتن بھی دھوئیں گے اور صفائی بھی کریں گے۔ بھائیوں کے ہوتے تو ٹینشن کیوں لیتا ہے۔ہم تو تمہیں تنگ کر رہے تھے بس۔"کچھ دیر بعد کچن سے آتی ہنسی مذاق کی آواز پر عالم مسکرا دیا۔

@@@@

وہ دیوانہ وار بھاگتی جا رہی تھی۔پیروں میں كنكر چبھ رہے تھے۔ لہو لہان پیر چلنے سے انکاری تھے پر عزت جانے کا خوف رکنے نہ دے رہا تھا۔وہ پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر بھاگتی ہی چلی جا رہی تھی۔

بھاگتے بھاگتے جب اسے قدموں کی آواز قریب سنائی دینے لگی تو جس گھر کا گیٹ کھلا نظر آیا اسی میں داخل ہو گئی۔

وہ ایک بہت بڑے شاندار سے  گھر کا بڑا کالا گیٹ تھا۔ گیٹ کا چھوٹا دروازہ ادھ کھلا ہوا تھا۔ وہ اندر داخل ہوتی اپنے پیچھے دروازہ بند کر گئی۔ 

"کون ہے؟"بھاری مردانا آواز پر اس کی پہلے سے الجھی سانسیں سینے میں اٹک سی گئیں۔

طالم اور فہام باہر واک کرنے نکلے تھے اس لئے باہر کا دروازہ کھلا ہوا تھا.عالم باہر لان میں ہی واک کر رہا تھا جب کھٹکے کی آواز آئی۔ اسے لگا دونوں بھائی واپس آ گئے ہیں پر دونوں بھائیوں کی جگہ وہاں کوئی لڑکی تھی وہ بھی بہت بری حالت میں۔ وہ لڑکی اپنے پیچھے دروازہ بند کیے  کھڑی هانپ رہی تھی۔ اس کے پکارنے پر وہ مزید کانپنے لگی۔عالم نے اپنے قدم اس کی طرف بڑھائے تو وه خوف سے تھر تھر کانپنتی دونوں ہاتھ منہ پر جما گئی۔






















































































Post a Comment

0 Comments